سائنسی میلے: بچوں کو سائنسدان بنانے کا آسان نسخہ

پاکستانی معاشرے میں والدین ہوں ، بچے ، یا اساتذہ ۔ سب ہی کی زندگی روزمرہ کے ایک معمول کے گرد گھومتی ہے جس میں سائنسی میلوں یا مباحث جیسی دماغ کو متحرک رکھنے والی تقریبات کی کوئی گنجائش نہیں ۔یقینا ََ ا س کی ایک بڑی وجہ ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی ہے جو بچوں کی مخفی صلاحیتیوں کو سامنے لانے کے بجائے انھیں محض سلیبس پورا کرنے اور امتحانات پاس کرنے پر اکساتا ہے اس پر ترح یہ کہ والدین بچپن سے یہ بات ان کے ذہن میں بٹھا دیتے ہیں کہ ایسے پیشے کا انتخاب کرنا ہے جس سے زیادہ تنخواہ والی اچھی نوکری با آسانی حاصل ہوجائے،یوں تعلیم کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے اور درسگاہوں سے وہ ڈگری ہولڈرز نکل رہے ہیں جن میں ملک و قوم کا نام روشن کرنے اور کچھ غیر معمولی کر دکھانے کا جذبہ ہی نہیں ۔ اس طرح کے ماحول میں سائنسی علوم کی ترویج کے لیئے تقریبات یا سائنسی میلوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا بلاشبہ جو ئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔
چند برس قبل اشعر بھی لاہور شہر کے ایک معیاری انگلش میڈیم سکول کا ذہین طالبعلم تھا جس کی زندگی اپنے جیسے لاکھوں بچوں کی طرح گھر ، سکول ، کوچنگ سینٹر اور امتحانات کی روٹین کے گرد گھومتی تھی ، جسکی ساری ذہانت اور مخفی صلاحیتیں بھاری سکول بیگ اور الم غلم کتابوں کےبوجھ تلے دفن ہوتی جارہی تھیں اور سلیبس کی کتابوں سے بے رغبتی کے باعث اس کا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزرنے لگا تھا ۔ پھر ایک واقعہ اس کی زندگی بدل دینے کا باعث بنا ۔ ہوا کچھ یوں کہ ان کے شہر میں مختلف سائنس سوسائٹیز کے اشتراک سے ایک بڑا سائنسی میلہ منعقد کیا جارہا تھا جس میں شرکت کے لیئے پہلے سکول میں سائنسی ماڈلز کا مقابلہ تھا۔ ذہین طلبا ء طالبات کے لیئے یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے اپنی سائنس کی کتابوں کو پوری توجہ سے کھنگالا تا کہ سا ئنسی ماڈل کے لیئے کوئی آئیڈیا حاصل کر سکیں ، مگر ا شعر سمیت سب ہی کی اس حوالے معلومات بہت تھوڑی تھیں ۔ انکی یہ مشکل سینئر سائنس ٹیچر سر عمر نے کچھ یوں حل کی:
کسی بھی سا ئنسی پراجیکٹ پر ابتدا ایک اچھے اور دلچسپ موضوع کے انتخاب سے کی جاتی ہے جو چیلنجنگ بھی ہو ، تاکہ آ پکی مخفی صلاحیتیں کھل کر سامنے آ سکیں ۔ اس کے بعد متعلقہ موضوع پر درسی کتب ، پریکٹیکل جرنلز یا انٹر نیٹ کے ذریعے مکمل معلومات حاصل کیجئے۔ اگر آپکسی نئے موضوع پر کام کرنے کا رسک نہیں لینا چاہتے تو کسی پرانے پراجیکٹ پر بھی کام کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہفتہ ، دس دن لگا کر مکمل تحقیق کے ساتھ کوئی نیا تصور یا رخ سامنے لانے کی کوشش کیجیئے۔ ابتدا میں پیچیدہ پراجیکٹ کے انتخاب سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ نا تجربہ کاری کے باعث وہ آپ کے لیئے در د ِ سر بھی بن سکتا ہے۔
پراجیکٹ منتخب کرنے کے بعد اگلہ مرحلہ لیبارٹری میں ماڈل کی تیاری اور اس کے لیئے ضروری سازو سامان کی فراہمی کا ہے جس کے لیئے ایک نا تجربہ کار طالبعلم کے بجائے آپکو ایک سائنسدان کے نقطۂ نظر سے سوچنا ہوگا ۔ یاد رکھیئے کہ یہ تجربات اور سائنسی میلے مستقبل میں سائنس کے میدان میں کچھ غیر معمولی کر دکھانے کی پہلی سیڑھی ہیں ۔ ہماری درسگاہیں اسی لیئے سائنسدان پیدا کرنے سے قاصر ہیں کہ یہاں طلبا ء و طالبات کے دماغوں میں سائنسی قوانین اور مساواتیں ٹھونسی جا رہی ہیں اور انھیں از خود ثابت کرنے یا مزید تحقیق پر اکسایا نہیں جاتا ۔


کسی بھی پراجیکٹ میں پیش رفت سے پہلے یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لیجیئے کہ ججز کے پیمانے پر وہی پراجیکٹ پورا اترتا اور قابل ِ غور سمجھا جاتا ہے جس میں کم سے کم سامان اور لاگت کے ساتھ آئیڈیا کو بہترین انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ لہذاٰ آپ کو نا صرف ایک سائنسدان کی طرح سوچنا بلکہ عمل بھی کر کے دکھانا ہوگا ۔ یعنی ابتدائی ناکامی سے دلبرداشتہ ہو کر کوشش ترک نہیں کرنی ۔ یاد رکھئے ! سا ئنس غلطیوں سے نئے در وا کرنے کا نام ہے ۔ گلیلیو سے سٹیفن ہاکنگ تک آج تک کوئی نامور سائنسدان ایسا نہیں گزرا جسے ابتدائی مرحلے میں ہی ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑا ہو-
اس سائنسی میلے کے انعقاد کا اصل مقصد یہی ہے کہ طلبا ء طالبات درسی کتب میں درج اور اساتذہ کے پڑھائے یا سکھائے کو حرف آخر سمجھنے کے بجائے اسے عملی طور پر پرکھنا اور برتنا سیکھیں ۔ اور جیسا کہ آپ سب نے سنا ہوگا کہ ‘ زندگی کی ہمیشہ سے یہی ریت رہی ہے کہ ہار کے بعد جیت مقدر بنتی ہے’ اور انہی کا مقدر بنتی ہے جو گر کر ازخود اٹھنا اور غلطیوں سے سبق حاصل کرکے اصلاح کرنا جانتے ہیں ۔ ماڈل یا پراجیکٹ میں کوئی استاد آپکی غلطی کی نشاندہی نہیں کریگا ، تجربہ بار بار دہرا کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے طویل اور کھٹن عمل میں بارہا آپکی ہمت ٹوٹے گی، کئی دفعہ حوصلہ شکنی ہوگی مگر آپکی محنت رائیگاں ہرگز نہیں جائیگی ۔
چونکہ آپ میں سے بیشتر بچے پہلی دفعہ اس طرح کے مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں اس لیئے میں سمجھتا ہوں کہ سائنسی میلے کے کچھ اور فوائد بھی آپ لوگوں کو اختصار میں بتا دوں۔ ان مقابلوں میں جیتنے والے طلباء و طالبات کے گروپس کو ملکی سطح پر مقبولیت تو حاصل ہوتی ہی ہے ، اگر وہ اپنی کامیابی کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے نئے تحقیق سامنے لائیں تو انھیں ناصرف بین الاقوامی سائنسی مقابلوں میں بھیجا جاتا ہے بلکہ انکی تحقیقات کو معروف سائنسی جرائد میں شائع بھی کروایا جاتا ہے ۔ اس سے ایک طرف انکی تحریری صلاحیتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں تو دوسری جانب مستقبل میں بیرون ِ ملک اعلی ٰتعلیم کے لیئے وضائف کا حصول بھی آسان ہو جاتا ہے ۔ جبکہ بار بار مقابلوں میں شرکت سے پریزینٹیشن دینے کی صلاحیت اور خود اعتمادی بڑھتی ہے جو ایک سائنسدان بننے کی لازمی شرط ہے۔


سر عمر خان کے ایک گھنٹہ طویل لیکچر کے بعد جب اشعر اور اس کے ساتھی لیب سے نکلے تو انکی ساری الجھنیں دور ہو چکی تھیں ، اگرچہ اس برس انکا گروپ سائنسی میلے میں شرکت کرنے میں کامیاب رہا مگر شہر بھر کے سکول و کالجز کے طلباء طالبات کے سامنے وہ کوئی غیر معمولی کار کردگی د کھانے میں ناکام رہے ۔ اگلے برس وہ مکمل تیاریوں اور بھرپور تحقیق کے ساتھ ایک نئے پراجیکٹ کے ساتھ شریک ہوئے اور ہر جانب سے واہ واہ سمیٹی۔ آج اشعر لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کا طالبعلم ہے اور ایک بین الاقوامی ‘روبوٹکس ‘ مقابلے میں شرکت کے لیئے پوری طرح مستعد ہے ۔
اشعرکی کامیابی کی یہ کہانی آپکی بھی ہوسکتی ہے ، جنوری 2018 میں ‘خوارزمی سائنس سوسائٹی ‘ کے اشتراک سے لاہور سائنس میلہ ایک دفعہ پھر اپنی رونقیں بکھیرنے کو ہے ۔ اپنی صلاحیتیوں کو آزمانے اور سائنسدان بننے کا خواب پورا کرنے کا ایک بہترین موقع آ پکا منتظر ہے۔

 

تحریر:صادقہ خان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *