عصر حاضر اور تعمیر حیات میں سائنس کا کردار اور کرشمات

انسان اور کائنات کا آپس میں بہت گہرا رشتہ ہے۔ حیاتیاتی سطح پر انسان فطرت کی کوکھ سے جنم لیا گیا جاندار ہے جسے جمادات و نباتات سے انتہائی. قریبی نسبت ہے۔لیکن انسان اپنے جیسے دیگر جانداروں سے مختلف ہے ۔اس اختلاف کا اظہار اسکی سماجی زندگی میں ہوتا ہے۔انسانی سماج دیگر تمام ذی حیات مخلوقات کے سماجوں سے مختلف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کا سماج ایک تہذیبی عمل سے گزرتا ہے اور ہر تہذیبی عمل کی بنیاد کچھ انسانی رشتوں، احساسات اور علوم پر ہوتی ہے۔رشتوں سے خاندان یا قبیلہ ، احساسات سے رسوم و روایات اور علوم سے فکروفلسفہ جنم لیتا ہے۔جس طرح خاندان اور روایات کا نسل در نسل انتقال تہذیبی عمل کے لئے ضروری ہے ویسے ہی فکر و فلسفہ انسانی سماج کی ترویج کے لئے لازمی ہوتا جاتا ہے

قدیم دور سے ہی انسان نے جس قدر تبدیلی اپنے خاندانی نظام اور روایات میں پیدا کی ہےاسی قدر تبدیلی علوم و افکار میں بھی آئی ہے۔اگر کبھی سماجی حالات اور روایات نے انسانی فکر پر اپنے اثرات مرتب کیئے ہیں تو وہیں نئی فکر نے نیا سماج بھی تشکیل دیا ہے۔یورپ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں کے انسان نے قدیم مذہبی اور یونانی قیاس آرا طرز فکر کو خیر آباد کہا اور تجرباتی سائنس کی بنیاد رکھی جس کے نتائج پوری دنیا میں دیکھے جاسکتے ہیں۔دنیا جو آج انٹرنیٹ، تیز رفتار ہوائی جہازوں اور بڑے پیمانے کی مشینری جیسی نعمتوں کے وسیلے سے علمی، اقتصادی اور ثقافتی لحاظ سے ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر گئی ہے تو اسکی بنیاد میں دیگر سماجی ، سیاسی اور معاشی انقلابات کے ساتھ ساتھ سائنسی انقلاب بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔لیکن کیا سائنس صرف عملی زندگی میں انسان کے سماج کو تبدیل کرتی ہے یا ہم اسے اپنی کائنات کے بارے مکمل فہم کا وسیلہ قرار دے سکتے ہیں؟ دیگر شعبہ جات جیسے آرٹ اور اسکی مختلف اقسام موسیقی، مصوری،شاعری ، نثر سمیت علم الکلام، تصوف یا روحانیت وغیرہ بھی تو کائنات اور انسان کے باہمی تعلق کی وضاحت پیش کرتے ہیں۔ پھر سائنس کیا ادب سے معتبر قرار دی جائے ؟ ایسا کیوں دیکھنے میں ملتا ہے کہ زیادہ تر جو لوگ سائنس کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں وہ مذاہب اور ادب وغیرہ کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے؟

حقیقت پسندی اور جمالیات میں زیادہ بنیادی کون ہے؟ سائنس اور معنی خیزی کا باہمی ربط کیا ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں جو علم وجود میں آتا ہے اسے کبھی ‘سائنس کا فلسفہ’ اور کبھی ‘لسانیات اور سائنس’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
لاہور میں واقع ماڈل ٹاون سوسائٹی میں ڈی پی ایس سکول میں خوارزمی سائنس سوسائٹی کی جانب سے 29 اور 30 اکتوبر کو لاہور سائنس میلہ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ خوارزمی سائنس سوسائٹی کے زیر اہتمام یہ لاہور کا چوتھا میلہ ہے ۔ اس میلے میں محقق ، سائنسدان، طالب علم اور عوام جوق در چوق شرکت کرتے ہیں۔ سائنس کے علمی کمالات اور مظاہرون سے لیکر سکولون ، کالجون اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں تک ہر عمر کا سائنسدان اور طالب علم بغیر صنفی تفریق یا طبقہ اس میں شرکت کرتا ہے

گزشتہ میلہ جو 2019 میں ہوا تھا اس میں پنجاب کے ہر ضلع سے کم از کم ایک سکول نے اپنی عملی اور سائنسی منصوبون کیساتھ اس میں شرکت کی اسکے علاوہ دانش سکول سسٹم کے 14 سکول بحی شریک ہوئے لاہور کے کالجز اور سکولون کے ساتھ ساتھ جامعات کے طالب علم بھی اپنے پراجیکٹس کی نمائش کے ساتھ میلے میں شریک تھے ۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی دنیاءے فزکس کی سب سے بڑی لیبارٹری سرن کے میڈیا ہیڈ جاوو پیکینیو اپنی ایل ایچ سے انٹریکٹو ٹنل کیساتھ موجود تھے۔ اس مرتبہ سرن کیساتھ ساتھ کچھ اور غیر ملکی مہمان اور نامور سائنسدان بھی لاہور سائنس میلہ کو رونق بخش رہے ہیں جن میں سے سافٹ ربوٹکس یا شعبہ زراعت کیلئے بائیوربورٹس تیار کرنے والی اٹلی کا مشہور زمانہ بائیو ربورٹکس انسٹی ٹیوٹ شرکت کر رہا ہے۔ ایران سےاصفہان سکول آف میتھس کے اساتذہ جو پہلے بھی لاہور سائنس میلہ میں شرکت کر چکے ہیں تسریف لا رہے ہیں۔ شارجا میں امریکن یونیورسٹی کے استاد اور آسٹروفزکس کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھنے والے ڈاکٹر ندھم گیسم اور امریکی ریاست ایریزونا سے فزکس کے ماہر

استاد اور متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر پال ڈیوس ویڈیو لنک سے شرکت کریں گے۔

لاہور فن و ثقافت کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ملک میں قابل رشک تعلیمی اداروں اور تخلیق کاروں کا مزکز بھی ہے اسی شہر میں سائنس کے فروغ اور اسے آسان فہم عملی طریقہ سے طالب علموں تک پہنچانے کی ایک تحریک کا آغاز نوئے کی دہائی میں ہوا اور یہ تحریک تھی خوارزمی سائنس سوسائٹی کا قیام ۔ جو ایران سے تعلق رکھنے والے شہرہ آفاق ریاضی دان اور الجبرہ کے موجد محمد ابن موسی الخوارزمی کے نام پر رکھی گئی۔
صاحب علم جانتے ہیں کہ خوارزمی ہی وہ شخصیت ہیں جنکے بنائے الجبزہ کی بنیاد پر آج کا سوشل میڈیا اور دنیا بھر میں جاسوسی کے جدید ترین نظام چل رہے ہیں اور لوگ ردم کے کمالات آئی ٹی سے شروع ہو کر ہر شعبہ ہائے زندگی پر چھائے ہوئے ہیں۔
لاہور کے ایک مایہ ناز محقق، استاد اور سائنسدان ڈاکٹر انوار سادات نے نوئے کی دہائی میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ جو اب ایک ملکی تحریک کی شکل لے چکا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *